ولادت با سعادت
عباس بن علی کی ولادت باسعادت چار شعبان المعظم 26ھ کو ہوئی۔ انھوں نے اس وقت تک آنکھ نہیں کھولی جب تک ان کے بھائی سیدنا حضرت امام حسین علیہ السلام نے انھیں اپنے ہاتھوں میں نہیں لیا۔ بچپن ہی سے انھیں حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بہت مودت محبت اور عقیدت تھی۔ علی بن ابی طالب نے اس عظیم الشان بچے کا نام عباس رکھا۔
حضرت عباس ؑکی تاریخ تولدکےسلسلےمیں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن معروف یہ ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت جمعہ کےدن چہار شعبان سال ٢٦ ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئیٔی۔ امیر المومنین نے اپنے نو مولود کا نام عباسؑ رکھا چونکہ علی (ع) بعنوان دروازہ
علم نبوت جانتے تھے کہ ان کا یہ فرزند ارجمند بغیر کسی شک و تردیدکے باطل کے مقابلے میں سخت اور هیبت والے اور حق کے سامنے شاداب و تسلیم ہے۔ استاد ارجمند آیت اﷲ ڈاکٹراحمدبہشتی دامت برکاتہ اپنی ایک کتاب (قہرمان علقمہ) میں عباس کے معنی بیان کرتے هوے فرماتے ہیں: «نہیں جانتا کہ عباس ؑکو زیادہ غصہ دلانے والا معنی کروں یانہیں۔ کیونکہ آپ ہی تھے کہ دشت کربلا میں دشمن آپ کےوجود سے غصے میں آجاتا اوراس پر حالت عبوست ظاہرہوجاتی۔ا اورنام عباس ان کی چین وسکون کوچھین لیتا تھا۔ » البتہ اھل لغت نے لفظ عباس کا ایک اور معنی بھی بیان کیا ہے وہ معنی بھی حضرت عباس کے لیے مناسب اور موزوں ہے۔اس معنی کے تحت عباس اس شیر کو کہتے ہیں جس کو دیکھ کر دوسرے شیر بھاگ جاتے ہیں۔اور یہ منظر صحرا طف میں سب نے دیکھاکہ جناب عباس جس طرف بھی حملہ کرتے تھے سارے یزیدی وہاں سے بھاگ جاتے تھے۔ شجاعت ، بہادری، وفا اور دلیری جیسی خصوصیات کو دیکھتے ہوئے شجاع باپ نے اپنے شجاع بیٹے کا نام عباس ؑرکھا اور مورخین کے کلمات اس بات کے گواہ ہیں وہ لکھتے ہیں:«سماہ امیرالمومنین علیه السلام بالعباس لعلمه بشجاعته و سطوته و عبوسته فی قتال الاعداء و فی مقا بله الخصما» ٰ حضرت علی علیہ السلام نے عباس کا نام عباس اس لیے رکھا کیونکہ آپ میدان جنگ میں دشمن کے مقابلے میں حضرت عباس کی شجاعت،قدرت و صلابت کے بارے میں علم و آگاھی رکھتے تھے۔
ابتدائی زندگی
علی بن ابی طالب نے ان کی تربیت و پرورش کی تھی۔ علی بن ابی طالب سے انھوں نے فن سپہ گری، جنگی علوم، معنوی کمالات، مروجہ اسلامی علوم و معارف خصوصاً علم فقہ حاصل کیے۔ 14 سال کی معمولی عمر تک وہ ثانی حیدرؑ کہلانے لگے۔ اسی بنا پر اُنہیں ثانی علی المرتضی ٰ بھی کہا جاتا ہے۔ عباس بن علی بچوں کی سرپرستی، کمزوروں اور لاچاروں کی خبر گيری، تلوار بازی اور مناجات و عبادت سے خاص شغف رکھتے تھے۔ ان کی تعلیم و تربیت خصو صاً کربلا کے لیے ہوئی تھی۔ لوگوں کی خبر گیری اور فلاح و بہبود کے لیے خاص طور پر مشہور تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو باب الحوائج کا لقب حاصل ہوا۔ حضرت عباس کی نمایان ترین خصوصیت ”ایثار و وفاداری“ ہے جو ان کے روحانی کمال کی بہترین دلیل ہے۔ وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے عاشق و گرویدہ تھے اورسخت ترین حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ لفظ وفا ان کے نام کے ساتھ وابستہ ہو گیا ہے اور اسی لیے ان کا ایک لقب شہنشاہِ وفا ہے۔ آپ عرب اور بنو ہاشمؑ کے خوبصورت ترین ہستیوں میں سے تھے۔ اسی لیے آپ کو قمر بنی ہاشمؑ بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت عباس کا حسب ونسب
کسی شخص کی شخصیت اس کے حسب و نسب سے بخوبی سمجھی جاسکتی ہے چونکه صالح گرجانوں کی مثال اس پاک سر زمین کی سی ہے جس میں شایستہ اورپھلدار درخت پر ورش پاتے هیں۔ خاندانی اصالت شخصیتوں کی پرورش میں نمایا ںکردار ادا کرتی ہے، تبھی تو امام علی علیہ السلام مالک اشتر ؓکو خطاب کرتے ہوئے فرماتے هیں ۔« وتوَّ خَ منهم اهل التَّجربة و الحیاء من اهل البیوتات الصالحة والقدم فی الاسلام المتقدمة فانهم اکرم اخلاقا و اصح اعراضا و اقل فی المطامع اشرافا و ابلغ فی عواقب الامور نظرا » یعنی اپنے عمّال میں سے ایسے افراد کا انتخاب کرو جو تجربہ کار و غیرت مند ہوں اور ان کا تعلق صالح خاندانوں سے ہو اور وہ اسلام میں اپنی خدمات کی بناپرپیشی رکتھے ہوں کیو نکہ ایسے لوگ بلند اخلاق ،بے داغ اورعزت والے ہوتے ہیں۔ حرص و طمع کی طرف کم جھکتے ہیں اور عواقب و نتایج پر زیادہ نظر رکھتے ہیں۔امیر المومنین علی علیہ السلام کے اس فرمان سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ حسب و نسب پاک ہی گوہر و صدف پاک کو پروان چڑھایاکرتا ہے۔ نسب پاک ہر کسی کے نصیب میں نہیں آتا۔ حضرت عباس علیہ السلام ان خوش قسمت افراد میں سے ایک ہیں جن کو عالم انساب میں وہ برتری حاصل ہے جو کم کسی کو حاصل ہوتی ہے۔وہ باپ کی جانب سے علوی و هاشمی ہیں جو شرف اور کرامت میں بے نظیر ہے جن کانظیر روی زمین میں پیدا نہیں ہوسکتا ہے۔ یوں ، عباسؑ نہ فقط قمر بنی ہاشم ہیں بلکہ قمر بشریت اور جہان ہستی کا چمکتا ہوا مهتاب ہیں۔
حضرت عباسؑ کے والدگرامی حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام ہیں کہ جن کی عظمت کے سامنے دوست و دشمن سب سر تسلیم خم کے نظرآتےہیں۔ ان کی ماں فاطمہ بنت حزام بن خالد جو ام البنین سے ملقب اور اسی نام سے معروف ہوئیں۔آپ کی شخصیت عالم اسلام میں بے نظیر مانی جاتی ہے آپ ہی کے چار فرزند کربلا میں سبط پیامبر حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جام شھادت نوش فرماکر تا ابد زندہ وجاویدہوگئے۔
حضرت ام البنین کا خاندان شرافت و پاکی ، سخاوت و شجاعت اور مہمان نوازی میں عرب کے قبائل کےدرمیان زبان زد عام و خاص تھا۔ ان کے والدین، دادا، پردادا ۔۔۔ بھی انسانی کمالات کے شہرہ آفاق ستارے تھے۔حضرت ابوالفضل عباسؑ نے فضائل و کمالات کو ان دو خاندانوں سے ورثے میں پایا تھا۔
حضرت عباس علیہ السلام کے القاب
ارباب تاریخ نے حضرت عباسؑ کے کئی القاب بیان کیے ہیں ، ہم ان میں سے کچھ کا بیان اختصار کے ساتھ ایسے ہے۔
١۔ابو الفضل:
ابو الفضل یعنی فضیلتوں کامالک(باپ)، حضرت عباسؑ کو شاید ان کی انگنت فضائل کی وجہ سے اس لقب سے موسوم کیا گیا ہو یا فضل ان کےکسی بیٹے کا نام تھا جس کی وجہ سےآپ ابو الفضل کہلایے۔
Ещё видео!