#Adopted#Child) کی شرعی اور قانونی حیثیت۔پاکستانی قوانین کے تناظر میں“2020 YLR 441متبنی یعنی لے پالک بچوں کو گود لینے کے طریقہ کار کے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک اہم فیصلہ !
فیصلے کی تفصیل میں جانے سے پہلے کیس کے مختصر حقائق کچھ یوں ہیں کہ :
عثمان نامی ایک بچہ سات اگست انیس سو چھیاسی کو ویانا آسٹریا میں اعجاز عمر اور ثمینہ عمر کے ہاں جنم لیتا ہے لیکن اس بچے کو یعنی عثمان کو اس کی سگی خالہ یعنی تہمینہ رفیق اور اس کا شوہر ملک رفیق اٹھائیس اگست انیس سو چھیاسی کو گود لے لیتے ہیں یعنی ایڈاپٹ کر لیتے ہیں اور عثمان کو گود لینے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ تہمینہ رفیق بے اولاد ہوتی ہے لیکن یہاں پر یاد رہے کہ عثمان کو گود لیتے وقت کوئ کاغذی کارروائی نہیں ہوئ تھی لیکن گود لینے کے تقریباً پینتیس سال بعد یعنی چھ اپریل دو ہزار اکیس کو ملک رفیق اور اور اس کی بیوی تہمینہ رفیق عثمان کو گود لینے کے حوالے سے دستاویز تیار کرتے ہیں اور یاد رہے کہ دستاویز پر تمام فریقین متفق ہوتے ہیں۔ دستاویز تیار ہونے کے بعد تہمینہ رفیق اور ملک رفیق سول کورٹ میں دعویٰ استقرار حق کرتے ہیں کہ عثمان کو ہمارا لے پالک بچہ ڈکلیئر کیا جائے اور اس دعوے کے حق میں عثمان کے حقیقی والدین بھی عدالت میں بیان دیتے ہیں اور اس کے علاؤہ ملک رفیق اور تہمینہ رفیق عدالت میں بینک کے کاغذات ثبوت کے طور پر جمع کرتے ہیں کہ ہم تینوں یعنی میاں بیوی اور لے پالک بچے کا مشترکہ بینک اکاؤنٹ دو ہزار سات سے ہے لیکن سول کورٹ اس دعوے کو اس وجہ سے خارج کر دیتی ہے کہ ملک رفیق اور تہمینہ رفیق دعویٰ استقرار حق کے حصول کے لئے پینتیس سال کی تاریخ کو کوئ جواز فراہم نہیں کر سکے ۔
سول کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف فریقین عدالت عالیہ اسلام آباد سے رجوع کرتے ہیں اور عدالت عالیہ میں یہ کیس جسٹس بابر ستار کے سامنے مقرر ہوجاتا ہے ۔ عدالت عالیہ اس کیس کے مناسب حل کے لئے تین سوالات رکھتی ہے جو کہ زیل ہیں:
الف) کیا پاکستانی قوانین کی رو سے کسی بچے کو گود لیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟
ب) اگر قوانین کی رو سے بچے کو گود لینے کی اجازت ہے تو لے پالک بچے اور اس کو گود لینے والدین کے کیا حقوق و فرائض ہوں گے ؟
ج) اور کیا کسی آدمی کو تین صدیاں گزرنے کے بعد لے پالک قرار دیا جاسکتا ہے بالخصوص جس وقت اس کو گود لیا گیا ہوتا ہے تب وہ مائنر ہو اور اگر کوئ دستاویزی کاروائی نہ ہوئ ہو ؟
عدالت عالیہ نے مندرجہ بالا سوالات میں مدد کے لیے استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد منیر صاحب اور عدیل واحد ایڈووکیٹ کو عدالتی معاون مقرر کیا ۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد منیر صاحب اور عدیل واحد ایڈووکیٹ نے معاون مقرر کیے جانے کے بعد عدالت میں اپنے تفصیلی جوابات جمع کروائے جس کا خلاصہ عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں صراحتاً لکھا ہے اور ساتھ ہی ساتھ میں ریسپانڈنٹس کے وکیل کے دلائل کا خلاصہ بھی فیصلے میں درج ہے ۔
ریسپانڈنٹس اور عدالتی معاونین کے جانب سے عدالتی معاونت کے بعد عدالت نے اپنے فیصلے کا آغاز لے پالک بچوں کے حوالے سے پاکستانی قوانین سے کیا ہے اور اس ضمن میں عدالت نے مسلم پرسنل لا ایکٹ انیس سو باسٹھ کے دفعہ دو کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ لے پالک اور گارڈین شپ کے حوالے سے فیصلے اسلامی قوانین کے مطابق کئے جائیں گے اور اس کے جسٹس صاحب نے انفورسمنٹ آف شریعہ ایکٹ کا حوالہ دے کر صراحتاً لکھا ہے کہ عدالت فیصلے کرتے ہوئے اسلامی اصولوں کو مد نظر رکھے گی یا بالفاظ دیگر عدالت فیصلے فقہ اسلامی کی روشنی میں کرے گی ۔ اس کے بعد جسٹس صاحب نے لکھا ہے کہ چونکہ لے پالک بچوں کے لئے کوئ قانون موجود نہیں ہے تو اس لئے اس حوالے سے فیصلے فقہ اسلامی کی روشنی میں ہوں گے ۔ اس کے بعد عدالت نے لمیٹشن ایکٹ اور سپیسفک ریلیف ایکٹ کے سیکشن بیالیس کا حوالہ بھی دیا ہے اور مندرجہ بالا بحث کی روشنی کا نتیجہ عدالت نے یہ نکالا ہے کہ مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ پاکستانی قوانین میں بچے کو سپیسفک ریلیف ایکٹ کے سیکشن بیالیس کے تحت گود لیا جاسکتا ہے اور اس پر کوئ ممانعت نہیں ہے ۔ اس کے بعد عدالت نے وہ چند صورتیں لکھی ہیں جس میں کسی بچے کو گود لینے سے قانونی طور پر فایدہ اٹھایا جاسکتا ہے جیسا کہ بیرون ملک سفر کے لئے ، طبی مراعات وغیرہ ۔
پہلے سوال کی وضاحت کے بعد عدالت عالیہ نے دوسرے سوال کو سمجھنے کے لیے چند عدالتی نظائر کا سھارا لیا ہے جو کہ زیل ہیں:
الف) رابعہ بنام عزیز PLD 1965 SC 665 :
اس کیس میں ایک لے پالک بچے کو اپنے باپ کی طرف سے گفٹ میں جائداد بغیر قبضہ کے ملی تھی تو عدالت نے اس گفٹ کو قانونی تصور کیا تھا اور لکھا تھا کہ لے پالک بچے کے حق میں گفٹ میں قبضہ اگر نہ بھی دیا جائے تب بھی گفٹ ٹھیک ہوگا ۔
ب) مس نینسی بنام ڈسٹرکٹ جج اسلام آباد PLD 2011 ISB 6 :
عدالت نے اس کیس میں لے پالک بچی کو گود لینے والی ماں کے ساتھ حقیقی والدین کی رضامندی سے بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی۔
ج) فوزیہ بنام فرحت PLD 2015 LAH 401 :
عدالت نے اس کیس میں حق حضانت کا فیصلہ لے پالک والدہ کے حق میں کیا تھا ۔
مندرجہ بالا عدالتی نظائر کے بعد عدالت عالیہ نے فیصلے میں لے پالک والدین کے فرائض کے حوالے سے کئ عدالتی نظائر کیا ہے۔
دوسرے سوال کی وضاحت کے بعد عدالت نے تیسرے سوال کے جواب کے لیے لمیٹشن ایکٹ ، سپیسفک ریلیف ایکٹ اور عدالتی نظائر کا سھارا لیا ہے جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ دعویٰ استقرار حق کے لیے لمیٹشن چھ سال ہے اور اس کے علاؤہ بھی ریسپانڈنٹس کی جانب سے ایسا کوئ ثبوت عدالت میں جمع نہیں کیا جا سکا جس سے یہ بات ثابت ہو کہ عثمان اپنے ایڈاپٹڈ والدین کے ساتھ رہا ہو اور اس کے علاؤہ عثمان کی تعلیم بھی اسلام آباد میں ہوئ ہوتی ہے جب کہ اس کے ایڈاپٹڈ والدین لاہور کے ہوتے ہیں اور اس کے علاؤہ دعویٰ استقرار حق میں پینتیس سال کی تاریخ کے بارے میں بھی ریسپانڈنٹس عدالت کو مطمئن نہیں کر سکے جس کے باعث عدالت نے مندرجہ بالا تمام باتوں کی روشنی میں فریقین کا کیس خارج کردیا۔
Ещё видео!