سرینگر // ملاپ نیوز نیٹورک //
وادی کشمیر کی قدیم دستکاریوں میں قالین بافی ایک اہم صنعت ہے جو وادی کشمیر کی منفرد پہچان کی حیثیت رکھتی ہے۔ ماضی میں یہ صنعت کشمیر کی اقتصادیات میں ایک اہم جز کے طور پر شامل تھی تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس صنعت کو بھی شدید نقصان سے دو چار ہونا پڑا اور اس طرح یہ صنعت زوال پذیر ہونے کے دہانے پر پہنچ گئی۔
اس صنعت کی شانِ رفتہ کو بحال کرنے کے مقصد سے حکومتی سطح پر نت نئے اقدامت روبہ عمل لائے گئے ہیںجس کی ایک عمدہ مثال سرینگر میں قائم انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کارپیٹ ٹیکنالوجی کا شعبہ ہے ۔ مذکورہ ادارے نے قالین بافی کی اس صنعت کو زوال پذیر ہونے سے بچانے کے لئے مختلف اقدامات کئے ہیں۔ ان اقدام میں ایک تازہ قدم کشمیر میں ہاتھ سے بُنے جانے والے قالین کے لئے کیو آر کوڈ پر مبنی جی آئی ٹیگنگ کا نظام متعارف کرنا شامل ہے ، یہ نظام ملکی سطح پر اپنی نوعیت کا پہلا ایسانظام ہے جس کی مدد سے کشمیر میںتیار کی گئی قالین کی صداقت اور باقی مطلوبہ تفصیلات کی جانچ و تصدیق ممکن ہو گی اور اس عمل سے عالمی منڈی میں دستیاب کشمیر کے نام پر نقلی مصنوعات پر روک لگے گی۔
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کارپیٹ ٹیکنالوجی سرینگر کے ڈائریکٹر زبیر احمد نے بتایا کہ اس نظام سے اب ایک صارف ان مصنوعات کو خریدنے کے دوران ہی اپنے موبائل فون کے ذریعے جی آئی مارک قالین سے کوڈ اسکین کر کے تمام جانکاری حاصل کر سکے گا ۔ اس جانکاری میں جہاں اصلی اور نقلی میں فرق کیا جاسکے گا تو وہیں قالین تیار کرنے میں استعمال شدہ مواد ، رنگ ،ڈیزائن اور یہاں تک کہ دستکار کے نام تک معلوم کئے جا سکتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ اس قدم سے یورپی اور خلیجی ممالک میں کشمیری قالین صنعت کو فروغ ملے گا ساتھ ہی اس صنعت سے وابستہ افراد کی آمدنی میں بھی اضافہ درج ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس امر سے توقع یہ ہے کہ اب کشمیر کا خالص مال ہی بیرون منڈیوں میں دستیاب رہے گا اور اس کی نقل پر روک لگے گی۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ گزشتہ کچھ دہائیوں سے عالمی بازارمیں تبدیلی اور نقلی قالین دستیاب ہونے سے اصلی قالین صنعت کی برآمدات متاثر ہوئی ہیں ،جس کے چلتے جی آئی ٹیگنگ اور کیو آر کوڈ کا متعارف ہونا کافی اہمیت کا حامل مانا جا رہا ہے ۔ کیو آر کوڈ کو متعارف کرنے کے بعد جی آئی ٹیگ شدہ سلک قالینوں کی پہلی کھیپ گزشتہ ہفتے پرنسپل سیکرٹری برائے صنعت وحرفت کی موجودگی میںدلی سے یورپ کے لئے روانہ کی گئی۔
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کارپیٹ ٹیکنالوجی سرینگر میں کام کر رہے ایک ملازم نے بتایا کہ پہلے قالین کی بنائی میں استعمال کی گئی سوت،کپاس و ریشم کی تاروں کی تعداد اور ان کی ہیئت سمیت مکمل جانکاری حاصل کر کے سند دی جا تی تھی تاہم اب یہی جانکاری کیو آر کوڈ میں محفوظ کی جاتی ہے جس کی وجہ سے اب قالینوں کی چانچ کرنے کا کام بھی بڑھ گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر درجنوں قالینوں کو سکرینگ کے عمل سے گزارنے کے بعد کیو آر کوڈ پر مبنی لیبلنگ کی جاتی ہے۔
ہاتھ سے بُنے جانے والے کشمیری قالین کے کاریگر نثار احمد نے اس نئے نظام کے متارف ہونے پر اطمنان کا اظہار کیا تاہم انہوں نے بتایا کہ یہ صنعت تبھی اپنی شانِ رفتہ بحال کر پائے گی جب اس کے کاریگروں کو معقول معاوضہ دیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ایک قالین بُننے میں مہینوں لگ جاتے ہیں لیکن اس کے بدلے میں مناسب کمائی نہیں ہو پاتی۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے نوجوان قالین بُننے کے کام کو اپنا مستقبل نہیں بنانا چاہتی کیونکہ ان کے لئے یہ اچھی کمائی کا ذریعہ نہیں ہے ۔
Ещё видео!